لطائف کے وقفے میں کالم بھی ہوگا
 


روبینہ فیصل


لطیفہ نمبر ایک: استاد کلاس سے گراہم بیل کا سب سے زیادہ ممنون اور احسان مند کون ہے؟کوئی سے تین اشخاص کے نام لیں ؟

ایک بچہ کھڑے ہوتے ہوئے انتہائی بے چینی سے ۔۔۔ جناب صدر بش ۔۔ جن کے ایک ٹیلی فون گھمانے سے تیسری دنیا کے تیسرے درجے کے ملک گھوم جاتے ہیں ۔

دوسرا بچہ ہمارے صدر زرداری صاحب جن کے ٹیلی فون سے لائیو ٹاک شو میں شامل ان کے وزراء کسی بھی قسم کی شراکتی یا صدارتی رہنمائی سے محروم نہیں رہ سکتے ۔

اور ایک اور ڈرتا ڈرتا بچہ ۔۔ سر جان کی امان پائوں تو عرض کروں ۔۔ مجھے پہلے پورا تحفظ دیا جائے ،پولیس پروٹیکشن دی جائے ۔۔۔ استاد نے اکتائے انداز میں کہا اچھا بابا تمھیں ہر طرح کی حفاظت کا یقین دلا یا جاتا ہے ۔۔ سر میرے گھر والوں کی بھی حفاظت کا ۔۔ ہاں بابا ہاں ۔۔ سب کی ۔۔ سر میرے محلے والوں کی بھی ۔۔۔ ہاں ہاں ہاں ۔۔۔ پھر خوف سے کانپتے ہوئے سر جی ۔۔ جناب الطاف بھائی صاحب کو ۔۔۔ اگر گراہم بیل فون نہ ایجاد کرتا تو لندن سے کراچی اور کراچی سے پورے پاکستان کی سیاست میں مداخلت کیسے ہونا تھی ؟ اتنی موتوں کا افسوس کس نے کرنا تھا ، کتنی بیماریوں کی عیادت سے لوگوں نے محروم رہ جانا تھا ، لوگوں کی خوشیوں میں جو بذریعہ فون الطاف بھائی شریک ہوتے ہیں ،، وہ سب کیسے ممکن ہونا تھا ۔۔ رونا دھونا ، اوڑھنا بچھونا ، لڑنا مرنا ، خوشی غمی ، دکھ سکھ ۔تقریریں ،مرثیے ،گانا بجانا اور سر سنگ ۔ان سب میں الطاف بھائی ایک فون سے شامل ہوجاتے ہیں ۔۔ سب سے ذیادہ گراہم بیل کے وہ ممنون ومشکور ہونگے ۔۔

دوسرا لطیفہ : ایک اخبار نویس دوسرے سے الطاف بھائی نے اسفند یار ولی پر حملے کی مذمت کی ہے اور انہیں حسبِ معمول فون پر یہ روح پرور پیغام دیا کہ وہ اپنے آپ کو تنہا نہ سمجھیں ، زیرو نائن ان کا گھر ہے اور وہ اسے اپنی پناہ گاہ سمجھیں اور ان کے بندے اسفند یار ولی کی بھرپور حمایت کریں گے ؟

دوسرا اخبار نویس جو کسی اشتہار کی پیششکش کو نہایت غور سے پڑھ رہا تھا ، نے نہایت تیزی سے پوچھا تو کیا یہ پیشکش صرف غیروں کے لئے ہے ۔۔ ٩٠ میں دفاع ۔۔۔ الطاف بھائی کے بندے ۔۔۔

کیا مطلب ؟ ۔۔۔ میرا مطلب جو ٩٠ آپ کی حفاظت نہ کرسکا ۔۔۔ جو بندے آپ کی پناہ گاہ کے لئے نا کافی ہیں جس کی وجہ سے آپ ٩٠ چھوڑ کر لندن میں شیلٹر لئے بیٹھے ہیں ۔۔۔ تو کیا یہ پیشکش صرف اوروں کے لئے ہے ۔۔ اپنے لئے میں اور میرا لندن ۔۔۔۔۔۔

ہنسی نہیں آئی ۔۔ شائد یہ لطیفہ تھا بھی نہیں ۔۔۔۔۔

ایک اور لطیفہ سنائوں جو شائد حکمرانوں کے لئے تو ہو مگر ہمارے لئے نہیں ہے ۔۔ مجھے ، آپ کو ، ہر عام آدمی کو ۔۔۔ اس پر ہنسی نہیں آئے گی ۔۔ صدر صاحب نے فرمایا ۔۔ کشمیری دہشت گرد ۔۔۔ اور بھارت سے ہمیں کوئی خوف نہیں ۔۔۔ اور امریکہ امن کی فاختہ اوردنیا میں اس مثالی امن کا سہرا جناب صدرِ بش کے سر ۔ ہمیں آپ کو انگریزی اخبار کو سب کو یہی سمجھ آئی مگر وزیرِ اطلاعات جنہیں حقیقت میں وزیرِ بیوٹی پارلر ہونا چاہئے ۔۔ نے انکشاف کیا کہ امریکہ کا میڈیا جناب صدرِزرداری کے انٹرویو کو تروڑ مڑور کر پیش کر رہا ہے ۔ان کا یہ مطلب نہیں تھا ۔۔۔ تو کیا اسے جنرل نالج کی کمزوری سمجھا جائے ، اعصابی کمزوری سمجھا جائے ، دماغی کمزوری سمجھا جائے یا فقط انگریزی کی کمزوری سمجھا جائے ۔۔۔ جیسے ایک بزرگ خاتون نئی نئی کینڈا آئی تو دورانِ سیر ایک کتا ان کی طرف لپکا ، وہ بتاتی ہیں ۔۔ پرے پرے کی انگلش یاد کرتے کرتے وہ کتا انہیں کاٹ گیا ۔۔ کتے نے کاٹا تو پرے کی انگلش بھی یاد آگئی ۔۔۔ تو کیا ہمارے صدر کی گرائمر بھی اسی دن ٹھیک ہوگی جب بہت سارے کتے مل کر ہمارے ملک کو کاٹ چکے ہونگے ۔

ان سب کمزوریوں سے ایک اور کمزوری یاد آئی ۔۔ اخلاقی یا کرداری ۔۔۔ جب سارہ پالن کو دیکھ کر ہمارے صدرِزرداری نے صبر کا دامن چھوڑ دیا ۔۔۔ یا بہت خوش اخلاقی کا مظاہرہ کیا ۔۔ پتہ نہیں کیا تھا مگر جو ہمارے حکمران وزیر کہتے ہیں ہم تو ان کی بات سنتے اور مانتے ہیں وہ کہتے ہیں یہ سب رسما تھا ۔۔ ( کچھ ناقدین اسے رسم بھی کہ رہے ہیں )، فوزیہ حبیب اس قصے کی صفائی میں کہ رہ تھیں ان ملکوں میں اس طرح کی تعریف کوئی معیوب بات نہیں بلکہ اچھے اخلاق کے زمرے میں آتا ہے ۔۔ فوزیہ کے ویسٹرن ملکوں کے نالج کو دیکھ کر مجھے یہاں کینڈا کی ایک بھولی بسری خبر یاد آگئی، ایک ایرانی کو جو نیا نیا کینڈا آیا تھا ایک لڑکی کو بلااجازت چومنے پر چارج کر دیا گیا تھا ۔۔ جب اسے اپنی صفائی پیش کرنے کا موقع دیا گیا تو اس نے انتہائی معصومیت سے کہا ۔۔ اس لڑکی کی ٹی شرٹ پر لکھا تھا KISS MEتو میں نے سوچا یہ تو کینڈا ہے ، آذاد ملک ، یہاں ان باتوں کا کیا فرق پڑتا ہے ؟شائد وہ ایران کے کسی گائوں سے آیا ہوا سیدھا سادھا جوان بھی اپنی اس جسارت کو good mannersہی سمجھتا رہا ۔۔۔ اور اسے پتہ بھی نہ چلا اور وہ سزا کا مستحق ٹھہر گیا ۔۔۔ وہ تو پہلی پہلی بار ایران کے دور دراز گھٹے گھٹے علاقے سے کینڈا کی کھلی ہوا میں پہلی بار آیا تھا ۔۔۔ مگر زر داری صاحب ۔۔۔۔۔ مگر شائد وہ بھی شریک حیات کی گھٹن سے پہلی بار ہی کھلی ہوا میں باہر آئے تھے ۔ ورنہ تو ان کے آگے آگے ایک ایسا توانا شجر رہتا تھا ، جس کے پیچھے آدھی سے ذیادہ قوم تھی اور اتنی بھیڑ میں ان تک ہوا پہنچتی نہیں تھی ۔۔۔۔ جب سب بھیڑ بھاڑ چھٹی تو انہوں نے اپنے آپ کو سارہ کے سامنے پایا تو وہ بھی اس ایرانی لڑکے کی طرح اسے آزاد ملکوں کے آزاد سے ادب و آداب ہی سمجھ بیٹھے ۔۔۔۔ اور ناحق اتنا ہنگامہ بھرپا ہوگیا ۔۔۔۔ بھلا وہ بھی مان جاتے کہ میں تو یہ سمجھا تھا کہ یہ آذاد ملک ہے یہاں ایسی باتیں کرنا یا کہنا برا نہیں سمجھا جاتا ۔

نہ جانے یہ لطائف کے وقفے میں کالم تھا ۔۔ یا کالم کی بہتی ندی میں سے لطیفے کے جھرنے پھوٹتے رہے ہیں ۔۔۔ پتہ نہیں یہ کیا تھا ۔۔۔ مگر اس بات کا یقین ہے کہ یہ بے یقینی بہت وثوق سے ہمارا مقدر بن چکی ہے ۔ کیا ؟ کیوں ؟ کیسے ؟ کہاں اور کب ۔۔۔۔۔۔۔ سوچئے ان سوالوں کے درمیان ہم بہے جاتے ہیں اور بس بہے ہی جاتے ہیں ۔ اللہ حافظ و ناصر۔



Rubina Faisal
Certified Immigration Consultant
28 Dundas Street East, Suite 204
Mississauga, Ontario, L5A1W2
Canada
PH: 905-286-0899, 416-876-2197
www.canconsult.net,
www.rubinafaisal.com,